ولادت مبارکہ:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل سے تین سال بعد 573عیسوی میں ہوئی آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی ولادت باسعادت سے دو برس اور کچھ مہینے بعد پیدا ہوئے۔
نام ونسب:
حضرت ابوبکر صدیق کانام عبداللہ،ابوبکر کنیت اور صدیق و عتیق لقب ہے۔باپ کانام عثمان کنیت ابوقحافہ اور والدہ کانام سلمیٰ لیکن اپنی کنیت ام الخیر سے زیادہ پکاری جاتی تھیں۔آپ کا تعلق قریش کے خاندان سے تھا اور چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضوراقدسﷺسے جاملتاہے۔
ازواج اور اولاد:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج (بیویوں)کی تعداد چار ہے آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں،ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح،قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قنیلہ سے ہوا اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
- آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان(زینب)بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔
- حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئی۔
- آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیاحجتہ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔
غیرت ایمانی:
عام حالات میں حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نہایت نرم مزاج تھے ایسے معلوم ہوتاتھا کہ سختی ،خفگی،اور غصے سے تو آشنا ہی نہیں ہیں،دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ بات کرتے مگر اسلام کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور بہت سخت تھے۔مدینہ منورہ کے یہودیوں اور منافقوں کی طنزیہ باتوں پر تو آپ رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آتے تھے مگر کبھی اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بھی انہیں آقاﷺکی بارگاہ میں بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہوتاتو اس پر سخت ردعمل کا اظہار فرماتے۔
حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ نے (قبول ِاسلام سےپہلے)ایک بار آپ ﷺکی شان میں نازیبہ کلمات کہے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے،بعد میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرمﷺکو سارا ماجرہ سنایا تو آپﷺنے پوچھا!اے ابوبکر:کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟عرض کی جی ہاں!فرمایا:آئندہ ایسا نہ کرنا عرض کیا!یا رسول اللہﷺاگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت:
قرآن کی روشنی میں:حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہﷺکے پہلے خلیفہ برحق اورافضل البشر بعدالانبیاء ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:اِلّاَ تَنْصُرُوْہٗ فَقَدْنَصَرَ اللّہٗ اِذَا اَخْرَجَہٗ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا الغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔(سورتوبہ)
یعنی اگر تم اس کو مدد نہ دوگے۔پس تحقیق اللہ نے اس کو مدد دی ہے۔جس وقت اس کو نکال دیا تھا کافروں نے۔دوسرا دومیں کہ جس وقت وہ دونوں غار میں تھے۔جب وہ اپنے رفیق سے کہتاتھا غم مت کھاتحقیق اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اس آیت میں مذکور(صاحب)سے مراد بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔یہ وہ منقبت ہے کہ جس میں کوئی دوسرا صحابی آپ کا شریک نہیں۔
رسول اللہﷺکے محبوب:
ایک روز رسول اللہﷺنے اپنے شاعر حسان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تم نے ابوبکر کی شان میں کچھ کہا ہے۔حضرت حسان نے عرض کیا کہ جی!آنحضرتﷺنے فرمایا کہ سناؤ،میں سنتاہوں۔پس حضرت حسان نے یہ دوشعر پیش کیے۔
وہ غار شریف میں دو میں کے دوسرے تھے جس
حال میں کہ دشمن پہاڑ چڑھ کر ان کے گرد پھرا
وہ رسول اللہﷺکے محبوب تھے
لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہﷺنے خلق میں سے کسی کو آپ رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں فرمایا۔
یہ شعر سن کر رسول اللہﷺہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان پسیں ظاہر ہوئے۔اورفرمایا”حسان!تم نے سچ کہا۔وہ حقیقت میں ہیں بھی ایسے
سچی بات کرنے والے:
وَالَّذِیْ جَآءَبِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰئِک ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ۔
ترجمہ:اور جو لایا سچی بات اورسچ مانا جس نے اس کو (وہی لوگ ہیں پرہیز گار)وہی لوگ پرہیز گارہیں۔
اس آیت میں بقول حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ جو سچی بات لائے وہ نبی اکرمﷺاورجس نے تصدیق کی وہ صدیق اکبر ہیں۔
متقی وپرہیزگاری:
وَسَیُجَنَنَّبُھَاالْاَتْقیٰ اَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی وَمَا لِاحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِعْمَۃٍ تُجْزٰی اِلّاَابْتِغآءَ وَجْہٖ رِبِّہٖ الْاَعْلٰی وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔(سورہ لیل)
ترجمہ:اورجو بچایا جائے گا اس سے وہ بڑا پرہیزگار جودیتاہے اپنا مال پاک ہونے کو اور نہیں کسی کا اس پر احسان کہ بدل دیا جائے گامگر واسطےچاہنے رضا مندی اپنے پرودگار بلند کی اور بے شک وہ آگے راضی ہوگا۔
یہ آیت بالاتفاق حضرت صدیق اکبر کی شان میں نازل ہوئی ہے۔اس میں صراحت ہےکہ حضرت ابوبکرصدیق اتقیٰ ہیں۔جو اتقیٰ ہو وہ اللہ کے نزدیک اکرم ہے اور جو اکرم ہو وہ افضل ہوتاہے۔پس حضرت صدیق باقی امت سے افضل ثابت ہوئے۔
عاجزی وانکساری:
حضرت سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے تین سال پہلے اور خلیفہ بننے کے ایک سال بعد بھی ہمارے پڑوس میں رہے۔محلے کی بچیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں،آپ ان کی دلجوئی کیلئے دودھ دھو یا کرتے تھے۔جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی،اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں،آپ ہمیں دودھ دوھ کر نہیں دیں گے۔آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:کیوں نہیں!اب بھی میں تمہیں دودھ دوھ کر دیا کروں گا اور مجھے اللہ کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ ان بچیوں کو دودھ دوھ کر دیا کرتے تھے۔
اوصاف حمیدہ:
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ آپ گمراہیوں،غلط رسوم ورواج،اخلاقی ومعاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔آپ کے اعلیٰ محسن وکمالات اور خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب وجوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت وعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سےروایت ہے۔
حضور اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اوراللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتاہےاور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتاہے۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ارشاد فرمایا:اے ابوبکر!تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔
اہل بیت پر شفقت:
حضرت سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عصر کی نماز پڑھ کر باہر نکلے اور حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی شفقت سے انہیں اٹھاکر اپنی گردن پر بٹھا لیا اور فرمایا:مجھے میرے والد کی قسم!تومیرے محبوب ﷺسے مشابہ ہے۔اپنے والد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مشابہ نہیں یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ مسکرانے لگ گے۔
اکتساب فیض:
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ میں فرماتے ہیں۔کہ،مصطفیٰﷺجیسا کوئی پیر نہیں اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی مرید نہیں۔
اس سے معلوم ہوا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکتساب فیض حضور اکرم ﷺسے حاصل کیا۔
کرامات:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت! حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ باگاہ رسالت کے تین مہمانوں کے اپنے گھر لائے اور خود حضور اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوگئےاور گفتگو میں مصروف رہے،یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ نے دسترخوان بنوت پر کھالیا اور بہت زیادہ رات گزرنے کے بعد مکان پر تشریف لائے ان کی زوجہ نے عرض کی کہ آپ مہمانوں کو گھر چھوڑکر کہاں تشریف لےگئے تھے،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اب تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟تو زوجہ نے عرض کی کہ کھانا پیش کیا تھا مگر انہوں نے صاحب خانہ کی غیر موجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کردیا،یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے عبدالرحمٰن پر بہت زیادہ خفاء ہوئے پھر آپ خود مہمانوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھ گئے اور سب نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا،ان مہمانوں کا بیان ہے کہ،جب ہم کھانے کیلئے برتن سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتاتھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتاتھا۔اور جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔جب یہ معاملہ آپ کی زوجہ نے دیکھا تو قسم کھاکر کہا یہ تو پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے،پھر آپ اس کھانے کو لے کر بارگاہ رسالتﷺمیں حاضرہوئے،جب صبح ہوئی تو اچانک مہمانوں کا ایک قافلہ دربار رسالتﷺمیں حاضر ہوا جس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے،اورہر سردار کے ساتھ بہت سے شترسوار بھی تھے،ان سب لوگوں نے یہی کھاناکھایا اور قافلہ کے تمام سردار اور تمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے سے سیراب ہوا،لیکن پھر بھی اس برتن سے کھانا ختم نہیں ہوا۔
اقوال:
- سودرہم میں سے اڑھائی درہم بخیلوں اور دنیا داروں کی زکوٰۃ ہے اور صدیقوں کی زکوٰۃ تمام مال کا صدقہ کردیناہے۔
- عبادت ایک پیشہ ہے،دکان اس کی خلوت ہے،راس المال اس کی تقویٰ ہے اور نفع اس کاکنجی ہے۔
- گناہ سے توبہ کرناواجب ہےمگر گناہ سے بچنا واجب ترہے۔
- گناہ جوان کابھی بدہے لیکن بوڑھے کابدتر ہے۔
- جاہل کا دنیا میں مشغول ہونا بد ہے لیکن عالم کا بدترہے۔
- اللہ تعالی کی عبادت میں سستی عام لوگوں کیلئے بد ہے لیکن عالموں اور طالب علموں کیلئے بدترہے۔
- نماز کوسجدہ سہو پوراکرتاہے اورروزے کو صدقہ فطر پورا کرتاہے اور حج کو فدیہ پوراکرتاہے ایمان کو جہاد پوراکرتاہے۔
- زبان کو شکوہ سے روک،خوشی کی زندگی عطاہوگی۔
- شکر گزار مؤمن عافیت سے قریب ترہے۔
- خوف الٰہی علم سے ہوتاہے اور خدا تعالی سے بے خوفی جہالت سے ہے۔
- جسے رونے کی طاقت نہ ہو،وہ رونے والوں پر رحم ہی کیا کرے۔
وفات:
22جمادی الاخری 14ہجری بمطابق23اگست 634ءکو آپ نے 63برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی اپنی وفات سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرلیں۔لوگوں نے آپ کی ہدایت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےخلیفہ تسلیم کرلیا۔وفات کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ تمام رقم جو بطور وظیفہ آپ رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے دوران خلافت لی تھی۔اپنی وراثت سے بیت المال کو واپس کردی۔زندگی میں جو عزت واحترام آپ کو ملا۔بعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھہرے۔
اللہ تعالی ہمیں سیرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے اکتساب فیض کرتے ہوئے آپ کے اقوال واعمال کی پیروی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور محبت رسول ﷺکی خیرات سے ہمارے قلوب وارواح کو منور فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلینﷺ