گذشتہ چند سالوں سے ہمارے علمی حلقوں میں شاید ردّ عمل کی نفسیات کا شکار ہو کر ایک بات بارہاکی گئی اور مسلسل کی جارہی ہےکہ اہلسنت کے وسائل قابل ترجیح اور اہم امور پر خرچ ہونے کے بجائے غیر مُرجّح اور غیر اہم کاموں پر صرف ہورہے ہیں بالخصوص نعت خوانوں اور نعت خوانیوں کو بے حد وبے حساب “نوازا” جارہا ہےجبکہ مدارس اور اہل مدارس “محروم” ہیں۔ محافل و مجالس، جمعہ کے خطبات اور مدارس میں دوران تربیت یہی موضوعِ سخن بنا ہوا ہے۔یقیناً اس میں دو رائے نہیں کہ حقیقت حال یہی ہے۔اور اس حوالے سے خواص وعوامِ اہلسنت مجرمانہ غفلت کا شکار رہی ہےاور آج علمی تنزلی اور قحط الرجال کے مِن جملہ اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔ ہمارا سرمایہ علمی کاموں کی حوصلہ افزائی پر خرچ ہونے کے بجائے غیر ضروری یا کم ضروری ،غیر مفید یا کم مفید کا موں پر خرچ ہوکر حوصلہ شکنی کا باعث بنا ہے۔
اس حوالے سے تنقید و اصلاح کے مثبت اثرات مرتّب ہونے کے ساتھ ساتھ میری دانست میں کچھ منفی اثرات بھی مرتّب ہو رہے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ اب دینی اداروں کے حصولِ علم میں مشغول طلباءاور ماضی قریب میں فارغ التحصیل علماء کی توجہ اپنے “فرائض” سے زیادہ اپنے “حقوق “کی طرف ہے۔
انہیں اس بات کا احساس اور فکر تو دامن گیر ہے کہ علماء و طلباء کی ناقدری بایں معنی ہورہی ہے کہ اچھی تنخواہیں اور مراعات حاصل نہیں اور اہل مدارس نہایت کسمپرسی کے عالم میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں لیکن جو ذمہ داریاں اور فرائض ان پر عائد ہیں ان سے بہت حد تک صرفِ نظر کیا ہوا ہے یہ ہے وہ منفی اثر جو موجودہ علماء اور مستقبل قریب میں منصب علم و فضل پر فائز ہونے والوں پر مرتّب ہورہاہے۔
جبکہ ہم نے اپنے طالب ِ علمی کے زمانے میں کسی ایک استاد کو بھی شکوہ کرتے ہوئے نہیں پایا ہمیں کسی نہ کسی طرح معلوم تھا کہ ان کی تنخواہیں محدودہیں اس کے باوجود وہ اپنے حصہ کی شمع جلاتےرہےاور جلا رہے ہیں گویا اپنے حقوق کے ادراک کے باوجود ان کی نظر اور فکر کا دائرہ ان کے فرائض کے گرد تھا اور ہے۔
لہذا اہل علم مصلحین سے گذارش ہے اس حوالے سے طلباء کی تربیت ضروری ہے کہ کچھ ہو جائے قرآن و سنت کی خدمت اور دین کی سر بلندی کا فریضہ کماحقہ سر انجام دینےکی سعی و کوشش مستقل اور مسلسل ہونی چاہیے خواہ کیسے ہی حالات ہوں ہمارا مطمعِ نظر خدا و رسول(عزوجل و ﷺ) کی رضا کے سائے میں اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے اوراصحابِ صفہ کو اپنا آئیڈیل بناتے ہوئے”فریضہ خدمت دین “ہو ۔
ان شاءاللہ عزوجل وہ تمام انعامات جن کا وعدہ ربِّ ذوالجلال نے فرمایا ہے وہ ضرور حاصل ہو ں گے ،اور اس کے ساتھ ساتھ اگر دنیا میں بھی “نوازا” جائے تو شکرِ خداوندی بجالا ئیں ورنہ ورضوان من اللہ اکبر۔
کانٹا میرے جگر سے غمِ روزگار کا
یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو
خیر اندیش:
کاشف جاذبی
فارغ التحصیل:
جامعہ نضرۃالعلوم
ممبر:
تعلیمی تربیتی کمیٹی ،رہبر اسلامک فاؤنڈیشن