یاد رہے کہ فراغت اور بیکاری میں فرق ہے۔ فراغت اچھی چیز اور بیکاری بُری چیز ہے۔ چنانچہ جب تک تندرستی کا زمانہ ہوتا ہے اس وقت تک یہ خیال بھی نہیں آتا کہ کبھی بیماری آئے گی یافراغت کا وقت ملتا ہے تو یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ کبھی مصروفیت اتنی ہوا کرے گی۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ صحت یا فراغت عطا فرماتا ہے تو انسان دھوکے میں اپنا وقت گزارتا رہتا ہے اور اچھے کاموں کو ٹالتا رہتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہے کہ ابھی تو وقت پڑا ہے ابھی تو ٹائم ہے کل کر لیں گے بعد میں کر لیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی اصلاح سے محروم ہو جاتا ہے اس لئے سرکار ﷺ فرما رہے ہیں کہ ان نعمتوں کی قدر اسی وقت پہچان لو جب یہ حاصل ہوں۔
یہ صحت کی نعمت اس وقت جو تمہیں حاصل ہے کیا معلوم کب تک ہے کچھ خبر نہیں کس وقت بیماری آکر ڈیرہ جمالے اور کیسی بیماری آجائے۔ لہٰذا نیکی اور خیر و بھلائی کے کام کو، اور اپنی اصلاح کے کام کو، فکر آخرت کو اسی وقت میں اختیار کر لو کیا پتہ پھر یہ موقع ملے نہ ملے۔
کیونکہ جب بیماری آتی ہے تو کہہ کر نہیں آتی بلکہ اچھا خاصا تندرست انسان بیٹھے بیٹھے اچانک کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہوجاتا ہے، ہاتھ پیر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس لئے تندرستی کے اوقات کو غنیمت جانو کہ کیا خبر کل صحت رہے یا نہ رہے کل کس حال میں ہوں؟ اگر آج تم نے اس صحت و تندرستی کے اوقات کو گنوا دیا تو عمر بھر سر پکڑ کر روؤ گے اور حسرت کرو گے کہ کاش! صحت و تندرستی کے اوقات میں کر لیا ہوتا۔ لیکن اس وقت حسرت و افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس لئے ان نعمتوں کی قدر کرو۔
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice