یہ حدیث مبارکہ : “نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ” “جوامع الکلم” میں سے ہے اور غالبًا امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ چند حدیثیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ان چند احادیث پر عمل کر لے تو یہ اس کی آخرت کی نجات کیلئے کافی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے۔ اس حدیث کے ذریعے حضور ﷺ ہمیں پہلے سے تنبیہ فرما رہے ہیں۔ بعد میں تنبیہ تو خود ہو جاتی ہے لیکن وہ تنبیہ اس وقت ہوتی ہے جب تدارک کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس لئے پیارے نبی ﷺ جو ہم پر ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہربان ہیں اور ہماری نفسیات سے واقف ہیں اور ہم سے باخبر ہیں وہ فرما رہے ہیں کہ دیکھو اس وقت جو تمہیں صحت اور فراغت کے اوقات میسر ہیں بعد میں رہیں یا نہ رہیں اس سے پہلے کہ حسرت کا وقت آجائے اس کو کام میں لگا لو۔
یہ نفس انسان کو دھوکہ دیتا رہتا ہے کہ میاں! ابھی تو جوان ہو۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے ابھی تو ذرا کچھ مزے اڑا لیں ۔ جب وقت آئے گا تو اللہ اللہ کر لیں گے اور اس وقت اپنی اصلاح کی فکر کر لیں گے ابھی وقت پڑا ہے۔
حضور ﷺ فرما رہے ہیں کہ نفس و شیطان کے اس دھوکے میں نہ آؤ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو اس لئے کہ جو وقت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے بہت قیمتی ہے یہ بڑی دولت ہے عمر عزیز کے یہ لمحات انسان کو اسوقت تک میسر ہیں اس کا ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہے اس کو برباد اور ضائع نہ کرو بلکہ اس کو آخرت کے لئے استعمال کرو آئیے اپنے بزرگوں کو دیکھیں کہ وقت کی کیسی قدر کیا کرتے تھے۔
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice