حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دو قول نقل فرماتے ہیں پہلے قول میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں کو پایا اور انکی صحبت اٹھائی ہے۔ (لوگوں سے مراد صحابہ کرام علیہم الرضوان ہیں اس لئے کہ یہ خود تابعین میں سے ہیں اس لئے انکے اساتذہ حضور ﷺ کے صحابہ تھے) جن کا اپنی عمر کے لمحات اور اوقات پر بجز سونا چاندی کے درھم و دینار سے کہیں زیادہ تھا یعنی جس طرح عام انسان کی طبیعت سونے چاندی طرف مائل ہوتی ہے اور اس کو حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے اور اگر کسی کو سونا چاندی، درھم و دینار مل جائے تو وہ اس کو بڑی حفاظت سے رکھتا ہے
اس طرح یہ وہ لوگ تھے جو سونے چاندی سے کہیں زیادہ اپنی عمر کے لمحات کی حفاظت کیا کرتے تھے اس لئے کہ ان کے نزدیک زندگی کا ایک ایک لمحہ سونے چاندی کے اشرفیوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لمحہ بیکار کام میں یا ناجائز کام میں یا غلط کام میں صرف ہو جائے وہ لوگ وقت کی قدر و قیمت پہچانتے تھے کہ عمر کے جو لمحات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں یہ ایسی عظیم نعمت ہے جس کی کوئی حدنہیں اور یہ نعمت کب تک حاصل رہے گی؟ اس کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں اس لئے اس کو خرچ کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزر رہے تھے تو اس وقت جو صحابہ ساتھ تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو دو رکعت نفل کبھی جلدی جلدی میں تم پڑھ لیتے ہو ان کو تم بہت معمولی سمجھتے ہو۔ لیکن یہ شخص جو قبر میں لیٹا ہوا ہے اس کے نزدیک یہ دو رکعت نفل ساری دنیا و مافیھا سے بہتر ہیں۔ اس لئے کہ یہ قبر والا اس بات پر حسرت کر رہا ہے کہ کاش مجھے زندگی میں لمحے اور مل جاتے تو میں ان دو لمحوں میں دو رکعت نفل پڑھ لیتا اور اپنے نامہ اعمال میں اضافہ کر لیتا۔
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہوسکے کرلے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے
اندھیرا گھر، اکیلی جان دم گھٹتا دل اُکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
(اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice