روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہیں سفر پر تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک قبر کو دیکھا تو آپ وہاں پر سواری سے اتر گئے اور دو رکعت نفل ادا کیئے اور پھر سواری پر سوار ہو کر آگے روانہ ہو گئے ساتھ میں جو حضرات تھے انہوں نے سمجھا کہ شاید کسی خاص آدمی کی قبر ہے اس لئے یہاں اتر کر دو رکعت پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے آپ یہاں کیوں اترے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب میں یہاں سے گزرا تو میرے دل میں خیال آیا کہ جو لوگ قبروں کے اندر اس بات کی حسرت کرتے ہیں کہ شاید ہمیں اتنا موقع اور مل جائے کہ ہم دو رکعتیں پڑھ لیں اور ہماری نیکیوں میں دو نفل کا اضافہ ہو جائے کہ اس حسرت کے باوجود ان کے پاس نفل پڑھنے کا موقع نہیں تو مجھے معًا خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ موقع دے رکھا ہے اس لئے چلو میں جلدی سے یہ دو نفل پڑھ لوں۔ اس لئے میں نے سواری سے اتر کر فورًا دو نفل پڑھ لئے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ جن کو یہ فکر عطا فرماتا ہے وہ ایک ایک لمحے کو اسطرح کام میں لاتے ہیں اس لئے کہتے ہیں کہ اسی دنیا میں جو لمحات اللہ تعالیٰ عطا فرمائے ہیں ان کو غنیمت جانو اور ان کو کام میں لے لو۔ مثلاً ایک لمحے میں اگر ایک مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ کہہ دیا تو حدیث پاک میں آتا ہے ایک مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ پڑھنے سے میزان عمل کا آدھا پلڑا بھر جاتا ہے اور ایک مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہو تو پورا پلڑا بھر جاتا ہے۔ دیکھئے ہماری زندگی کے یہ اوقات و لمحات کتنے قیمتی ہیں اور ہمارا ایک ایک سانس کل قیامت میں ہمیں رسوائی سے بچا سکتا ہے بشرطیکہ زندگی کی ان قیمتی سانسوں کو ہم اللہ تعالیٰ کی یاد میں صرف کریں۔
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice