الاستفتاء:
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے سے متعلق کہ زید شیعہ مذہب سے پہچانا جاتا ہے ، وہ ایک سنی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں آج تک کبھی ماتم نہیں کیا اور نہ ہی میں نے صحابہ کرام بالخصوص شیخین رضی اللہ عنہم اجمعین کو برا کہااور ازواج مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہن کی عظمت کو دل سے تسلیم کرتا ہوں اور یہ کہ وہ یقینا ہماری مائیں ہیں۔ اور ساتھ ہی اسکا کہنا ہے کہ میں شیعت سے بیزار ہوں اور آپ جس سنی عالم کے پاس کہیں میں ان کے پاس جاکر شیعت سے توبہ کر نے اور انکے تمام کفریہ نظریات کو چھوڑنے کو تیار ہوں
مذکورہ مسئلے میں عمر کا کہنا یہ ہے کہ زید جھوٹا ہے اور تقیہ کر رہا ہے کہ شیعت میں یہ جائز ہے۔ جبکہ بکر کا کہنا یہ ہے کہ زید سنی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے کہ اس کی توبہ کا اعتبار کیا جائے گاکیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو تنبیہ فرمائی کہ جنہوں نے میدان جنگ میں ایک شخص کو یہ سمجھ کر قتل کیا کہ وہ موت کے خوف سے کلمہ پڑھ رہا ہے۔
مذکورہ مسئلے میں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ اگر یہ شادی ہو سکتی ہے تو لڑکے کے شیعت کی طرف پھرنے کی صورت میں لڑکی کو کیا کرنا ہوگا ؟
سائل : محمدزبیرصدیقی,کراچی
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الجواب اللهم ھدایۃالحق والصواب
وہ طبقہ جو صحابہ کرام و ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی شان میں گستاخیاں کرے، ان کو برا جانے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تمام صحابہ میں سب سے افضل مانے، ان سے نکاح حرام قطعی وباطل محض، اور قربت زنائے خالص ہے ۔ حدیث پاک میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے بد عقیدہ لوگوں سے نکاح اور ہر طرح کے تعلق سے ممانعت فرمائی ہے سیأتی قوم لھم نبز یقال لھم الرافضۃ یطعنون السلف ولایشھدون جمعۃ ولا جماعۃ فلاتجالسو ھم ولا تؤاکلوھم ولاتشاربو ھم ولاتناکحو ھم واذا مرضوا فلاتعودو ھم واذاماتوا فلاتشھدوھم ولاتصلوا علیہم ولا تصلوا معھم یعنی “عنقریب کچھ لوگ آنے والے ہیں ان کا ایک بدلقب ہوگا انہیں رافضی کہا جائے گا سلف صالحین پر طعن کرینگے اور جمعہ وجماعات میں حاضر نہ ہوں گے، ان کے پاس نہ بیٹھنا، نہ ان کے ساتھ کھانا کھانا، نہ ان کے ساتھ پانی پینا، نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا، بیمار پڑیں تو انہیں پوچھنے نہ جانا، مرجائیں تو ان کے جنازے پر نہ جانا، نہ ان پر نماز پڑھنا ، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا”(کنز العمال )۔
جیسا کہ شیخ الاسلام ، مجدد امام احمد رضاخان فرماتے ہیں، “آج کل عام روافض تبرائی خذلہم اللّٰہ تعالیٰ عقائد کفریہ رکھتے ہیں ان میں کوئی کم ایسا نکلے گا جو قرآن مجید میں سے کچھ گھٹ جانانہ مانتا اور حضرت امیرا لمومنین مولی المسلمین علی مرتضی وباقی ائمہ اطہار کرم اللہ تعالی وجوہہم کو حضرات عالیہ انبیاء سابقین علی نبینا الکریم وعلیہم افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے افضل نہ جانتا ہو، اور یہ دونوں عقیدے کفر خالص ہیں”توآج کل تبرائی رافضیوں میں کسی ایسے شخص کاملنا جسے ضعیف طورپر بھی مسلمان کہہ سکیں شاید ایسا ہی دشوار ہوگا جیسے حبشیوں زنگیوں میں چمپئی رنگت کا آدمی یا سپید رنگ کا کوّا، ایسے رافضیوں کا حکم بالکل مثل حکم مرتدین ہے۔ کما صرح به فی الظهیریة والهندیة والحدیقة الندیة وغیرها من الکتب الفقهاء جیسا کہ ظہیریہ، ہندیہ، اور حدیقہ وغیرہا کتب فقہ میں اس کی تصریح ہے”۔ (فتاوٰی رضویہ جدید جلد 11 کتاب النکاح صفحہ319،326)۔
اگر مذکورہ شخص واقعۃ اپنی سابقہ بد عقیدگیوں اور گمراہ کن نظریات سےبیزاری کا اظہار کرکےسچی اعلانیہ توبہ کرچکا ہےتو اسکی توبہ مقبول ہےجیسا کہ حدیث پاک میں ہے
اذا علمت سیئة فاحدث عندھا التوبة السر بالسر والعلانیة بالعلانیة یعنی “جب تم کوئی گناہ کرو تو اسی وقت توبہ کرو پوشیدہ گناہ کی تو بہ پوشیدگی میں ہے اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ (کنز العمال)فقہ حنفی کی مشہور کتاب ردالمحتارعلی الدرالمختار میں ہے: (وإسلامه أن يتبرأ عن الأديان) سوى الإسلام (أو عما انتقل إليه) بعد نطقه بالشهادتين، —– ولو أتى بهما على وجه العادة لم ينفعه مالم يتبرأ یعنی ” اسلام لانا اس وقت معتبر ہے جب اسلام کے سوا دوسرے تمام مذاہب اور خاص اس سے جواس شخص نے اختیار کیا، بیزاری ظاہرکرتے ہوے کلمہ طیبہ کی گواہی دے۔اور اگر کلمہ طیبہ عادۃ پڑھا تو جب تک دل سے بیزار نہ ہوگا اس وقت تک مسلمان نہ ہو گا”۔ ( جلد 4کتاب الجہاد، باب المرتد)۔
اعلانیہ توبہ کو جانچنے کے لیے احتیاط یہ ہے کہ چار ماہ تک اسکے معمولات کو دیکھا جائے کہ اس نے بد عقیدگی پر مبنی نظریات و معاملات ترک کیے یا نہیں،بد عقیدہ کی عبادت گاہوں اور مجلسوں میں جانا چھوڑا یا نہیں، کہ یہ مشاہدہ ہے کہ شہوت و نفس پرستی میں توبہ کر کے نکاح تو کر لیا جاتا ہے مگر کچھ عرصے بعد پھر سے سابقہ عقائد فاسدہ کو اختیار کر لیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تونکاح فوراً فسخ ہوجاۓگا اور عورت کو اس مرد سے جدا ہونا لازم ہوگا ورنہ زندگی بھر حرام کاری میں مبتلا رہے گی فتاوٰی عالمگیری میں ہے لان ردۃ الرجل فسخ فی الحال بالاجماع یعنی”خاوند کے ارتداد سے فوراً نکاح فسخ ہوجاتا ہے بالاجماع”(الفتاوٰی الہندیة، القسم السابع، المحرمات بالشرک )۔ یہی نہیں بلکہ اس کے کفریات کو جان کر اس پر راضی رہے گی تو وہ خود مرتد بے دین ہوگی کہ الرضا بالکفر کفر یعنی “کفر پر رضامندی خود کفر ہے”الامان والحفیظ۔ اللّٰھم طھر قلوبنامن کل وصف یباعدنا عن مشاھدتک و امتنا علی السنۃ و الجماعۃوالشوق الی لقائک یا ذالجلال والاکرام۔ واللّٰہ تعالی اعلم۔
کتبہ
محمد شفیق الرحیم خان العطاری
المتخصص فی الفقہ الحنفی
22محرم الحرام 1435 ھ بمطابق 26 نومبر 2013ء
قال بفمہ و امر برقمہ
مفتی عبدالرحمٰن قادری
الجواب صحیح
شیخ الحدیث مفتی محمد اسماعیل ضیائی
رئیس دارالافتاء الفیضان