سوال:
عدت کے دوران شوہر کا انتقال ہوگیا تو عورت کون سی عدت گذارے گی؟
دادا یا دادی سے بچے کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو تو بچہ کس کے ساتھ رہیگا؟
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ میرے شوہر کو منہ کا کینسر تھا ، جس کی وجہ سے وہ صحیح بات نہیں کر پاتے تھے ، مجھ سے بھی موبائل پر لکھ کر بات کرتے تھے ،اپنے گھر والوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے مجھے طلاق نامہ بھجوادیا، انھوں نے اپنے منہ سے یا کسی وجہ سے کبھی بھی طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا ۔طلاق نامہ بھجوانے کے کچھ دن بعد ہی انکا انتقال ہوگیا۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میں عدت طلاق یافتہ کی کروں یا بیوہ کی حیثیت سے عدت گذاروں۔ بچوں کی پرورش کا حق مجھے حاصل ہے یا نہیں ، براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔
سائلہ : ندا عارف بنت ہماہوں عارف گلزار ہجری، کراچی
جواب:
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
(1) صورت مسئولہ میں خاتون پر لازم ہے کہ دونوں عدتوں یعنی طلاق کی عدت اور انتقال ِ شوہر کی عدت میں سے جو دراز تر ہو (جو زیادہ طویل ہو) وہ عدت گزارےکیونکہ پہلے سائلہ پر طلاق کی عدت لازم تھی جو کہ تین حیض (ماہواری )تھی پھراسی دوران شوہر کےمرنے کے بعد انتقال ِزوج کی عدت بھی لازم ہوگئی جسکی مدت چار ماہ دس دن ہے۔
لہٰذا اب سائلہ پر لازم ہے کہ اگرپہلی عدت گذر چکی تو دوسری عدت کے جتنے دن باقی رہ گئے وہ پورے کرے اسکے برعکس اگر انتقال کی عدت پہلے مکمل ہوگئی اور طلاق کی عدت ابھی باقی ہے تو اسکومکمل کرے ہاں اگر چار مہینے دس دن کی مدت کے اندر ہی تین ماہواری پوری ہو چکی تو عدت پوری ہوگئی۔در مختار میں ہے
ابانھا فی مرضہ بغیر رضاھا بحیث صارفارا و مات فی عدتھا فعدتھا ابعد الاجلین
“خاوند نے اپنی مرض الموت میں بیوی کی مرضی کے بغیر طلاق دے دی عورت کے وارث بننے سے فرار اختیار کرتے ہوئے پھر وہ خاوند مطلقہ بیوی کی عدت میں فوت ہوجائے توایسی صورت میں عورت کی عدت، موت یا طلاق کی عدت میں سے جو بھی طویل ہو وہی قرار پائے گی” (درمختار، جلد ۳،کتاب الطلاق، مطلب فی عدت الطلاق)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ارشاد فرماتے ہیں
“اگر بائن طلاق دی تھی یا تین تو طلاق کی عدت پوری کرے جبکہ صحت میں طلاق دی ہو اور اگر مرض میں دی ہو تو دونوں عدتیں پوری کرے یعنی اگر چار مہینے دس دن میں تین حیض پورے ہو چکے تو عدت پوری ہوچکی اور اگر تین حیض پورے ہوچکے ہیں مگر چار مہینے دس دن پورے نہ ہوئے تو ان کو پورا کرے اور اگر یہ دن پورے ہوگئے مگر ابھی تین حیض پورے نہ ہوئے تو ان کے پورے ہونے کا انتظار کرے۔(بہار شریعت، کتاب الطلاق، عدت کا بیان)۔
(2) ۔شوہر کا طلاق نامہ میں اپنی بیوی کو بچوں سے ملنے سے روکنا ناجائز و حق تلفی ہے۔بچہ کی پرورش کا حق ماں کو ہےخواہ وہ نکاح میں ہو یا نکاح سے باہر ہوگئی ہو جبکہ فاسقہ فاجرہ نہ ہو فتاوی ہندیہ میں ہے
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة
” بچہ کی پرورش کی سب سے زیادہ حقدار ماں ہےخواہ وہ نکاح میں ہو یا جدائی ہو چکی ہو، ہو جبکہ مرتدہ یا فاجرہ غیر محفوظ نہ ہو” (فتاوٰی ہندیہ ،جلد ۱، کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الخضانۃ)۔بہار شریعت میں ہے “
اور زمانہ پرورش میں باپ اگریہ چاہتا ہے کہ عورت سے بچہ لے کر کہیں دوسری جگہ چلا جائے تو اُس کو یہ اختیار حاصل نہیں۔ جب پرورش کازمانہ پورا ہوچکا اور بچہ باپ کے پاس آگیا تو باپ پر یہ واجب نہیں کہ بچہ کو اُس کی ماں کے پاس بھیجے نہ پرورش کے زمانہ میں ماں پر باپ کے پاس بھیجنا لازم تھا ہاں اگر ایک کے پاس ہے اور دوسرااُسے دیکھنا چاہتا ہے تودیکھنے سے منع نہیں کیا جاسکتا(بہارشریعت، جلد ۸،کتاب الطلاق،پرورش کا بیان)
لہذا شوہر کا طلاق نامہ میں عورت کو حق پرورش سے محروم کرنا درست نہیں نیز لڑکے کو اُس وقت تک ماں کے پاس رکھا جائے گا جب تک اُس کی ضرورت رہے یعنی اپنے آپ کھاتا پیتا، پہنتا، استنجا کرلیتا ہو، اس کی مقدار سات برس کی عمر ہے اور لڑکی اُس وقت تک عورت کی پرورش میں رہے گی کہ حدِ شہوت کو پہنچ جائے اس کی مقدار نو برس کی عمر ہے۔ سات برس کی عمر سے بلوغ تک لڑکااپنے باپ یا دادا یا کسی اور ولی کے پاس رہے گااورلڑکی نو برس کے بعد باپ دادا بھائی وغیرہ کے یہاں رہے گی
فتاوٰی ہندیہ میں ہے
وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان
لڑکا مستغنی ہونے او لڑکی بالغ ہونے کے بعدباپ دادا بھائی وغیرہم ان کو رکھنے کے زیداہ حقدار ہیں تو جو زیادہ قریبی رشتہ دار ہے وہی زیادہ حقدار بھی ہے” (الفتاوی الھنديۃ،جلد ۱،کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانۃ) مگر بچوں کا اپنے دادا یا والد کے گھر والوں کے پاس جانے میں انہیں اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو تو بچے اپنے والدہ کے پاس رہینگے
جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
وأنت علمت أن سقوط الحضانة بذلك لدفع الضرر عن الصغير، فينبغي للمفتي أن يكون ذا بصيرة ليراعي الأصلح للولد، فإنه قد يكون له قريب مبغض له يتمنى موته۔۔ قريبه أخذه منها ليؤذيه ويؤذيها، أو ليأكل من نفقته أو نحو ذلك۔۔وقد يكون له أولاد يخشى على البنت منهم الفتنة لسكناها معهم، فإذا علم المفتي، أو القاضي شيئا من ذلك لا يحل له نزعه من أمه لأن مدار أمر الحضانة على نفع الولد
“اور بے شک تم یہ بات جانتے ہو کہ پرورش کا حق ساقط ہو جانے کا حکم کرنے کی وجہ بچے سےتکلیف کو دور کرنا ہے لہٰذا مفتی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں سمجھ بوجھ رکھنے والا ہو، تاکہ اس صورت کی رعایت کر سکے جو بچے کے لیے زیادہ بہتر ہو ۔ پس بے شک کبھی کبھی بچے کا کوئی ایسا قریبی رشتہ دار ہو تا ہے جواس بچے سے دشمنی رکھتا ہے اور اسے مارنا چاہتا ہے۔ بچے کا وہ قریبی رشتہ دار بچے کو ماں سے لے لیتا ہے تاکہ بچے کو اذیت دے، یا اسکی پرورش کے اخراجات کھا جائے یا اسی طرح دوسرے باتیں۔۔اور کبھی اس قریبی رشتہ دار کی ایسی اولاد ہوتی ہے جن کے ساتھ بچی کو رکھنے میں فتنہ کا خوف ہوتا ہے۔
تو جب مفتی یا قاضی ان سب باتوں میں سے کوئی بات جانے تو پھر اس بچے یا بچی کو ماں سے علیحدہ کرنے کاحکم کرنا ان کے لیے حلال نہیں اس لیے کہ پرورش کے معاملے میں حکم کا دارومدار اولاد کے نفع پر ہے” الدرالمختار و ردالمحتار،جز الثالث،کتاب الطلاق، باب الحضانۃ تحت قولہ
“والظاهر عدمه للفرق البين بين زوج الأم والأجنبي”
لہٰذا صورت ِ مذکورہ میں بچوں کو انکی والدہ سے جدا نہ کیا جائے۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم
کتبــــــــــــــــــہ
محمد شفیق الرحیم خان
المتخصص فی الفقہ الحنفی
۲۸۔ شعبان المعظم،۱۴۳۵ ھ،بمطابق۲۷جون،۲۰۱۴ء
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمٰن قادری
مفتی و مدرس دار الافتاء الفیضان
الجواب صحیح
شیخ الحدیث مفتی محمد اسماعیل ضیائی
رئیس دارالافتاء الفیضان