
الاستفتاء:
میں اور میرے دوست نے ایک ٹیوشن سینٹر کھولا گھر ا فراہیم کا ہے جبکہ میں صر ف پڑھاتا ہوں اور مشورے دیتا ہوں میری کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔اور میں جزوی ٹیوشن کی آمدنی میں 50 فیصد منافع کا شراکت دار ہوں باقی کا نہیں اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اگر میر ے مشورے سے ہم پر ائیوٹ داخلوں کا سلسلہ شروع کر تے ہیں تو بتائیے کہ فراہیم صرف بتاتا ہے کہ کس کو ایڈمیشن لیناہے۔ جبکہ ایک تیسرافریق فا رم لاتا اور لے جا تا ہے۔ تو آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ بتائیے کہ جو کمیشن ملے گا اس میں سے کس کا کتنا حصہ ہوگا ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب
سوال میں مذکورہ دونو ں صورتیں مضاربت کی ہیں۔ اس میں آ ئندہ ہونے والے منافع کا تنا سب طے کرنا جا ئز ہے، منا فع ہو نے سے قبل ہی رقم طے کر لینا کہ اس شخص کو اتنے اور دوسرے کو اتنے یہ مضا ربت فاسدہ ہے شر عا نا جا ئز ہے۔ جیساکہ فتاویٰ شامی میں شیخ علامہ ابن عابدین شامی متوفیٰ ۱۲۵۲ ھ تحریر فرماتے ہیں ۔ وکون الربح بینھما شائعا فلو عین قدرا فسدت وکون نصیب کل منھما معلو ما عندالعقد یعنی “منافع شرکاء کے درمیان شائع ہوناچاہیے اگر اس کی مقدار معین ہو تو مضاربہ فاسد ہے اور عقد کے وقت دو نوں کا حصہ معلو م ہونا چاہے‘‘(کتاب المضاربہ)۔ مذکورہ اصول کی روشنی میں سوال میں ذکر کردہ پہلی صورت جا ئزہے۔ دوسری صورت بھی مضا ربت ہی کی ہے کہ گھر فراہیم کا ہے۔ اس میں بھی حا صل ہو نے والے منا فع/ کمیشن کا تنا سب طے کرلیا جائے تو جا ئز ورنہ نا جا ئز جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے۔’’ ایک رقم تعین کردینا کہ نفع ہو یا نہ ہو ، کم ہو یا زائد ہو ، ہر طر ح اس قدر ماہوار دیں گے ضرور حرام ہے‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد۱۹ صفحہ ۱۳۳،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)۔ لہذا مضاربت صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کاروبار میں ہونے والے منافع کی شرح یا تناسب کوطے کرلیا جائے ۔ واللّٰہ تعالی اعلم
کتبہ
محمدندیم قادری، محمدسمیع اللہ ساسولی نقشبندی
المتخصصان فی الفقہ الحنفی
۲ دسمبر ۲۰۱۳ ء بمطابق ۲۹محرم الحرام ۱۴۳۴ ھ
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمٰن قادری
مفتی و مدرس دارالافتاء الفیضان