سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ پچیس (25)سال پہلے ایک خاتون کا نکاح میں دس ہزارروپیہ(10,000)مہرسکہ رائج الوقت مقرر کیا گیا،مگر ادا نہیں کیا گیاتھا اب خاتون اپنا مہر طلب کر رہی ہیں،تو کتنا ادا کیا جائے گا؟
سائل:ڈاکٹر فرید شاہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جواب:
بیوی کا حق مہرشوہرکے ذمہ قرض ہے یہی وجہ ہے کہ اگرکسی شخص کا انتقال ہوجائے توتجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی ماندہ مال سے دوسرے مرحلہ میں قرض ادا کرنے کا حکم ہے اسی مدمیں بیوی کا مہربھی واجب الادا ہوتا ہے۔اوروقت گزرنے سے قرض میں بلاوجہ اضافہ نہیں ہوتا لہٰذا پچیس سال پہلے نکاح کے وقت جومہرمقررکیاگیاتھا،پچیس سال گزرنے کے بعد بھی اسی مقدارمیں ادا کرنا لازمی ہے،مثلاً جیسا کہ سوال میں ذکر ہوا پچیس سال پہلے نکاح کے وقت دس ہزار روپیہ مہرطے ہوا تھا تو اب پچیس سال گزرنے کے بعد بھی دس ہزار روپیہ ہی واجب الادا ہے۔علامہ کاسانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
فتعتبرقیمتہ یوم الاستقرار وھو یوم العقد۔ (بدائع الصنائع،ج۲،ص٣٤٤،٣٤٥،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)
یعنی “مہر(کی ادائیگی)میں طے پانے کے دن کا اعتبار کیا جائے گااور وہ نکاح کا دن ہے”۔علامہ نظام الدین شاشی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:(ثم الاصل)
فی التسمیۃ انھا اذا صحت وتقررت یجب المسمّی ثم ینظر ان کان المسمّی عشرۃ فصاعدا فلیس لھا الا ذٰلک وان کان دون العشرۃ یکمل عشرۃ عند اصحابنا الثلاثۃ۔ (الفتاوی الھندیہ،ج۱،ص۳۰۳)
یعنی ”مہرمقررکرنے میں قاعدہ یہ ہے کہ جب مہر طے پاجائے تواسی طے شدہ مہرکو ادا کرنا واجب ہے،پھر دیکھاجائے کہ اگر طے شدہ مہر دس درہم یا اس سے زیادہ ہے توعورت صرف اسی کی حق دارہے اوراگردس درہم(یعنی ”مہرشرعی“)سے کم ہے،توکمی کوپورا کیا جائے،ہمارے ائمہ ثلاثہ (حضرت امام اعظم ابوحنیفہ،حضرت امام ابویوسف،امام محمد رحمھم اللہ) کے نزدیک“۔ لہٰذا واضح ہو اکہ نکاح کے وقت جتنامہر مقرر کیا گیا تھا اتنا ہی واجب الادا ہے مدت گزرنے سے اس میں بلاوجہ کمی بیشی نہیں ہوگی۔
واللّٰہ اعلم بالصواب
کتبــــــــــــــــــہ
ابوالضیاء محمدشوکت رضانقشبندی
المتخصص فی الفقہ الحنفی
الجوا ب صحیح
مفتی عبدالرحمٰن قادری
مفتی و مدرس دارالافتاء الفیضان