March 15, 2025

اگر شوہر کی آمدنی حرام ہو تو عورت کے کیلئے کیا حکم ہے؟

shohar ki haram amadni ka hukum.jpg

الاستفتاء:

میرے شوہر کی ساری آمدنی حرام کی ہے ،میں اسکا کیا کروں اور گزراوقات کس طرح کروں؟ شرعی حکم بیان کردیجیے۔

سائلہ :بنت نیازاحمد، ساکنہ ،لیاقت آباد،کراچی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

مسلمان کو صرف حلال کھاناہی روا ہے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں صرف حلال کھانے کا حکم فرمایا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں”( سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۲) وَکُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰلًا طَیِّبًا اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے(پارہ ۷ سورہ المآیدہ آیت۸۸)۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنے بیوی اور بچوں کو صرف حلال کھلائےورنہ بروزقیامت اللہ جل جلالہ کے آگےجواب دینا نہایت دشواراورمشکل ہوگا۔حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: كلكم راع ومسئول عن رعيته، فالإمام راع وهو مسئول عن رعيته، والرجل في أهله راع وهو مسئول عن رعيته یعنی “تم میں سے ہر شخص اپنےماتحت کا ذمہ دار ہے اور تم میں ہر شخص سے اسکے ما تحت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی،پس حاکم اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اس سے بروز قیامت اسکی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی اور شوہر اپنے اہل وعیال کا ذمہ دار ہےاور اس سے بروز قیامت اسکےاہل وعیال کے بارے میں پوچھا جاےگا” (صحیح البخاری،باب “العبدراع فی مال سیدہ”حدیث ۲۴۰۹)۔

مذکورہ صورت میں عورت پر لازم ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو اس مال حرام سے دور رکھے اور اگر اسکا کوئی اپنا حلال ذریعہِ آمدنی ہو تو اسی کو استعمال کرے تاکہ حرام کھانے کی نحوست سےبچی رہے۔ حضور ﷺنے ارشادفرمایا: لرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء يا رب يا رب و مطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك؟

ایک شخص اتنا لمبا سفر طے کرتا ہےکہ دھول آلود ہو جاتا ہے،وہ اپنا ہاتھ دعاکے لیےآسمان کی طرف پھیلاتا ہے اوریارب یارب کہتا ہےجبکہ حال یہ ہے کہ اسکاکھاناحرام کاہے،پینے کاپانی حرام کاہے،اسکالباس حرام کاہےحتٰی کہ اسکی غذابھی حرام کی ہے،اس حال میں اسکی دعابھلا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔اسی طرح ایک حدیث شریف میں ہے:

عن زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه، أنه قال: كان لأبي بكر الصديق، رضي الله تعالى عنه غلام يأتيه كل ليلة بغلته طعاما يأكله وكان أبو بكر رضي الله تعالى عنه لا يأكله حتى يسأله من أين اكتسبه؟ ومن أين أصابه؟ قال: فجاء ذات ليلة بطعام فضرب يده إليه فأكل لقمة من غير أن يسأله قال الغلام: قد كنت تسألني كل ليلة غير هذه الليلة، فإنك لم تسألني قال: ويحك الجوع حملني ويحك أخبرني من أين جئت به قال: كنت رقيت لأناس في الجاهلية فوعدوني عليه عدة فرأيت عندهم وليمة فذكرتهم وعدهم الذي وعدوني فأعطوني هذا الطعام فاسترجع أبو بكر رضي الله تعالى عنه عند ذلك ثم أخذ يتقيأ فكابد وجاهد نفسه أن ينزع اللقمة من بطنه فلم يقدر حتى اخضر واسود من الجهد فلم يقدر فلما رأوا ما يلقى من المعالجة قالوا: لو شربت عليه قدحا من ماء فأتي بعس من ماء فشرب ثم تقيأ فما زال يعالج نفسه حتى نبذها.فقالوا: هذا من أجل هذه اللقمة؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:إن الله تعالى حرم الجنة على كل جسد تغذى أو غذي بحرام(رواه البيهقي فی شعب الإيمان)
حضرت زید بن ارقم رضی الله تعالى عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالى عنہ کا غلام روزانہ اپنی کمائی سے کھانے کا سامان لے کر آتا، وہ خود تو کھا لیتا مگر آپ رضی الله تعالى عنہ اس وقت تک نہ کھاتے جب تک تسلی نہ کر لیتے کہ کہاں سے کمایا اورکس طرح کمایا ہے؟ اتفاق سے ایک رات غلام کھانا لا یا، مگر آپ رضی الله تعالى عنہ نے خلاف عادت بغیر پوچھے ایک لقمہ اٹھا کر کھا لیا تو غلام کہنے لگا آپ ہمیشہ مجھ سے پوچھا کرتے تھے ، مگر آج کیا ہوا ؟ ارشاد فرمایا: بھوک کی جلدی میں ایسا ہو گیا، مگر اب تو ضرور بتاؤ کہ کہاں سے کما کر لائے ہو؟ وہ بولا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں پر دم کیا تھا اور انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کر رکھا تھا ، آج میں نے ان کے ہاں ولیمہ کی تقریب دیکھ کر انہیں وعدہ یاد دلایا جس پر یہ کھانا مجھے ملا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالى عنہ یہ سن کر انا لله وانا الیہ راجعون پڑھنے لگے اور قے کرنے کی کوشش کی ، سو جتن کیے اور مشقت اٹھائی کہ کسی طرح وہ لقمہ پیٹ سے نکل جائے، مگر بھوکے پیٹ میں ایک لقمہ کی کیا قے ہوتی، تکلیف کرتے کرتے چہرہ مبارک کا رنگ سیاہ اور سبز ہو جاتا، مگر قے نہ ہو سکی، حتی کہ کسی نے مشورہ دیا کہ پیالہ پانی کا پیو تو شاید کامیابی ہوسکے، چنانچہ پانی کا ایک مشکیزہ لایا گیا، جسے پی پی کر قے پر قے کرتے رہے، حتی کہ وہ لقمہ باہر نکال ہی دیا۔ لوگوں نے کہا کیا اس ایک لقمے کے لیے اتنی مشقت اٹھائی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتےہوئے سنا ہے کہ الله تعالیٰ نے جنت کو ہر ایسے جسم پر حرام کر دیا ہے جس کی غذاحرام ہو (تنبیہ الغافلین باب آفۃالکسب والحذرعن الحرام و مشکاۃ المصابیح الجزء الخامس، باب الکسب و طلب الحلال الحدیث ۲۷۸۷)۔

اگر عورت کا واقعۃ کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں اور نہ ہی اس مال حرام کے علاوہ گزر اوقات کاکوئی چارہ ہے اور مکمل طور پروہ صرف اسی مال کو استعمال کرنے پر مجبور ہےتو اس صورت میں اسکے لیے یہ حل کہ وہ شوہر سےپیسہ نہ لے بلکہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ چیز منگوالے،اس طرح وہ شےاستعمال کرنےسے یہ عورت حرام میں مبتلاء ہونے سے بچ جائےگی،نیز خودبھی اللہ عزوجل ورسول ﷺکی اطاعت کرےاورساتھ ساتھ اپنے شوہر کواللہ تعالی کی فرمانبرداری کرنے اور حلال روزی اختیارکرنےکیمسلسل تلقین کرتی رہے،حرام کمائی کی وعیدبتاتی رہےاس امید پرکہ اسکے شوہر کو نصیحت ہوجائے۔

وھذافی ضوءما قالہ العلماءرحمہم اللہ فی درمختارو الحدیقۃ الندیہ والھندیۃ فیما لم یعرف لہ شیئا حراما بعینہ والفاظ الھندیۃ عن الذخیرۃ عن محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ”بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینہ۔ والحيلۃفي ھذہ المسائل أن يشتري نسيئۃ،ثم ينقد ثمنہ من أيما شاء (الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الکراھیۃ الباب الثانی عشر)۔ واللہ تعالی اعلم

کتبہ
محمد شفیق الرحیم خان

المتخصص فی الفقہ الحنفی
۱۹ربیع الاول۱۴۳۵ ھ بمطابق۲۱جنوری۲۰۱۴ء

الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمٰن قادری

مفتی و مدرس، دار الافتاء الفیضان

الجواب صحیح
شیخ الحدیث مفتی محمد اسماعیل ضیائی

رئیس دارالافتاء الفیضان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *