روزے کی حکمتیں ومقاصد
1۔ پہلی حکمت(تقویٰ کا حصول):
روزہ کی پہلی حکمت یا مقصد تقویٰ کاحصول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ”تم (اہلِ ایمان) پر پچھلی امتوں کی طرح روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ” گویا روزے کا مقصد عظیم انسانی سیرت میں تقویٰ کا جو ہر پیدا کر کے اس کے قلب اور باطن کو روحانیت اور نورانیت سے روشن کر دینا ہے۔
نوٹ:
تقویٰ کا مطلب اپنے آپ کو شریعت کی طرف سے منع کئے گئے کاموں سے روکنے پر آمادہ کرنا اور حکم دیئے کئے گئے کاموں کو کرنا ہے۔
2۔ دوسری حکمت (تربیت صبر و شکر):
روزہ کی دوسری حکمت تربیت صبر و شکرہے تقویٰ کی ایک کیفیت صبر کی آئینہ دار ہے جسکا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت کی محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے آلودہ کئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے روزہ انسان کو تقویٰ کےا س مقام صبر سے بھی بلند تر مقام شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے وہ اسکے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت ، تکلیف اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اسکی طبیعت میں ملال اور شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں بلکہ وہ ہر تنگی اور تکلیف کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہے۔
3۔ تیسری حکمت (جذبہ ایثار):
روزہ کی تیسری حکمت جذبہ ایثار کا حصول ہے روزہ کی حالت میں انسان بھوک اور پیاس کے کرب (تکلیف) سےگذرتا ہے تو یقیناً اسکے دل میں ایثار ، بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت حاصل کرتا ہے اور انسان (روزہ دار) ان کیفیات سے آگاہ ہو جاتا ہے جن کا سامنا معاشرے کے مفلوک الحال(تنگدست)، غرباء اور محروم لوگ کرتے ہیں۔ فی الحقیقت روزہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے آسودہ حال (خوشحال) بندوں کو ان مفلوک الحال اور محروم بندوں کے حال سے آگاہ کرنا چاہتا ہےتا کہ ان آسودہ حال لوگوں کے دلوں میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ بیدارہو۔
4۔ چوتھی حکمت (تزکیہ نفس):
روزے کی چوتھی حکمت تزکیہ نفس کا حصول ہے روزہ انسان کے نفس اور قلب کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے جوں جوں انسان روزے رکھتا ہے اسکے سبب سے وہ خواہشات ِ نفسانی کے جنگل سے خلاصی حاصل کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مسلسل روزے رکھنے اور مجاہدے و عبادات سے تزکیہ نفس کا حصول روزے دار کے لئے ممکن ہوجاتا ہے۔
5۔ پانچویں حکمت(رضائے الہٰی کا حصول):
روزے کی پانچویں حکمت رضائے الٰہی کا حصول ہے روزہ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ وہ بندے کو وہ تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہےجو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہوجاتا ہے رب کا اپنے بندے سے راضی ہوجانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اسکے مقابلے میں باقی تمام نعمتیں چھوٹی اور ہیچ نظر آتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر اور جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑدیا گیا ہے کہ اس کی رضا حد حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔