کہ اے نفس…! سوائے عمر کے تیرے پاس اور کونسا سرمایہ ہے؟ اب اس میں سے بھی جو وقت گزر گیا اور جو سانس نکل گیا جاتا ہے اس کا بدل تو ہاتھ آنے سے رہا اور سانسوں کی تعداد بھی کچھ ایسی زیادہ نہیں اور آگے جتنی کچھ ہے اس کا بھی کوئی علم نہیں۔ اور عمر بیت جائے تو تجارت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو کچھ بھی کرنا ہے ابھی کرنا ہوگا۔ زندگی کا میدان تنگ اور آخرت کی وسعتیں لا محدود ہیں۔ اور کام بھی وہاں کچھ نہیں سوائے جزا اور سزا کے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے دنیاوی زندگی کے اس مختصر سے میدان میں کرنا ہوگا۔ تو پھر اے نفس! حق تعالیٰ نے آج کا دن جو تجھے دیا ہے تو گویا ایک نئی زندگی عطا فرمائی ہے کہ اگر رات ہی میں مرجاتا ہے تو یہی حسرت دل میں پیدا ہوتی کہ اے کاش! ایک ہی دن کی مزید مہلت اور مل جاتی تو کچھ نیک کام کرنے کا موقع مل جاتا۔ تو اب اس حسرت و یاس سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو یہ مہلت کی نعمت تجھے عطا کی ہے تو اے نفس! میرا کہنا مان اور زندگی کے اس سرمائے کو غنیمت جان، دیکھ کہیں یہ بھی ضائع نہ ہو جائے۔
اوقات کو جتنا قیمتی بنانا چاہیں بنا لیں کیونکہ ایک ایک پل پل کا حساب اللہ جل جلالہ کی عظمت والی بارگاہ میں دینا ہوگا۔
ابن الصمتہ نامی بزرگ نے اپنی عمر کا حساب لگایا تو ساٹھ برس بنتے تھے پھر دنوں کا شمار کیا تو اکیس ہزار نو سو دن بنے۔ اور پھر کہا کہ۔ آہ! اگر ہر روز ایک گناہ بھی سرزد ہوتا ہو تو اکیس ہزار نو سو گناہ بن جاتے ہیں ان سے نجات کیونکر ملے گی؟ اور بہت سے دن ایسے بھی گزرےہوں گے جب ایک ہی دن سینکڑوں گناہ بھی سرزد ہوئے ہوں گے ہائے میرا کیا بنےگا؟ یہ کہہ کر چیخ ماری نیچے گر پڑے لوگوں نے دیکھا تو آپ کی روح جسم خاکی سے پرواز کر چکی تھی۔
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice