حضرت علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑے درجے کے محدثین میں سے ہیں اور بخاری شریف کے شارح ہیں اور علم کے پہاڑ ہیں اور عمل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ جس وقت تحریر کر رہے ہوتے تو کتاب لکھتے وقت جب قلم کا قط خراب ہو جاتا اس زمانے میں لکڑی کے قلم ہوا کرتے تھے اور بار بار اس کا قط بنانا پڑتا تھا تو اس کو چاقو سے درست کرنا پڑتا تھا اور اس میں تھوڑا سا وقت لگتا تھا تو یہ وقت بھی بیکار گذارنا آپ کو گوارا نہیں تھا چنانچہ جتنا وقت ہاتھ سے قلم کا قط بنانے میں گزرتا تو ساتھ ہی اتنی دیر زبان پر تیسرا کلمہ جاری رہتا تاکہ یہ وقت بھی جائع نہ ہو۔
کسی نے کیا خوب کہا:
“دست بہ کار دل بہ یار”۔
بہر حال حضور اکرم نور مجسم ﷺ کے ارشادات کا مفہوم ہے کہ وقت کی قدر کریں اور وقت کو ضائع نہ کریں۔ آج ہمارے ماحول میں سب سے زیادہ بے قدر اور بے وقعت چیز وقت ہے جس طرح چاہا گنوا دیا۔ گپ شپ میں گزار دیا فضولیات میں برباد کر دیا بلا وجہ ایسے کام میں گزار دیا کہ جس میں نہ دنیا کا نفع نہ دین کا فائدہ۔
کسی عربی شاعر کا شعر ہے :
اَلْوَقْتُ اَنْفُسُ مَا عَنِیْتُ بِحِفْظِہٖ
وَاَرَاہُ اَسْھَلُ مَا عَلَیْکَ یُضِیْعُ
یعنی وقت ایک نفیس ترین شے جس کی حفاظت کا تمہیں مکلّف بنایا گیا ہے جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہی چیز تمہارے پاس سب سے زیادہ آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔
i have some islamic books to publish
hi i am new
Nice